27ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات سامنے آگئے: عسکری و عدالتی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیوں کی تجویز

اسلام آباد (رانا علی ذوہیب )

اسلام آباد سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق 27ویں مجوزہ آئینی ترمیم کے اہم نکات سامنے آگئے ہیں، جن میں عسکری، عدالتی اور آئینی ڈھانچے میں وسیع تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہے۔ ترمیمی مسودے میں چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ قائم کرنے، وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اور صدر و گورنرز کو قانونی استثنیٰ دینے جیسے اہم نکات شامل ہیں۔

عسکری ڈھانچے میں تبدیلیاں

ذرائع کے مطابق نئے مجوزہ عہدے چیف آف ڈیفنس فورسز کا منصب آرمی چیف کے پاس ہوگا، جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا جائے گا۔

ترمیم کے تحت آرمی، نیوی اور ائیر چیف کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرے گا۔

فیلڈ مارشل، مارشل آف ائیر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے رینک رکھنے والے افسران کو تاحیات وردی پہننے، مراعات جاری رہنے اور عدالتی کارروائی سے استثنیٰ جیسی خصوصی چھوٹ دی گئی ہے۔ ان کے خلاف کارروائی صرف پارلیمنٹ کے مواخذے کے ذریعے ممکن ہوگی۔

وزیراعظم، چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کے کمانڈر کا تقرر کرے گا۔ مدتِ ملازمت پوری ہونے کے بعد حکومت انہیں ریاستی مفاد میں کوئی ذمہ داری بھی تفویض کر سکے گی۔

وفاقی آئینی عدالت کا قیام

ترمیم کا ایک بڑا حصہ نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ہے۔

عدالت میں صوبوں کی مساوی نمائندگی ہوگی اور ججز کی تقرری صدر کرے گا۔ چیف جسٹس آئینی عدالت کا تقرر بھی صدر کی طرف سے کیا جائے گا۔

آئینی عدالت کو اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کا اختیار ہوگا اور اس کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے، البتہ سپریم کورٹ کے فیصلے اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔

 

ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلوں کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا، اور جو جج تبادلہ قبول نہیں کرے گا، اسے ریٹائر سمجھا جائے گا۔

ازخود نوٹس کا خاتمہ، مدت اور عمر کی حدود

ترمیم کے تحت آئین کا آرٹیکل 184 (ازخود نوٹس) حذف کر دیا گیا ہے۔

وفاقی آئینی عدالت کے جج 68 سال کی عمر تک عہدے پر رہیں گے، جبکہ چیف جسٹس آئینی عدالت تین سالہ مدت پوری کر کے ریٹائر ہوں گے۔

 

اگر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کا کوئی جج وفاقی آئینی عدالت میں تقرری قبول نہ کرے تو اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

 

صدر اور گورنرز کے لیے مکمل قانونی استثنیٰ

ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ صدرِ پاکستان کے خلاف عمر بھر کوئی فوجداری کارروائی نہیں ہو سکے گی۔

اسی طرح گورنرز کے خلاف بھی ان کی مدتِ عہدہ کے دوران کوئی فوجداری مقدمہ نہیں چل سکے گا اور عدالتیں انہیں گرفتار یا جیل بھیجنے کا اختیار نہیں رکھیں گی۔

صدر، وزیراعظم کی ایڈوائس پر وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس اور بعد ازاں پہلے ججز کا تقرر کرے گا۔

ممکنہ اثرات اور عوامی ردِعمل

سیاسی ماہرین کے مطابق یہ ترمیم پاکستان کے آئینی اور ادارہ جاتی ڈھانچے میں طاقت کے ایک نئے توازن کی نشاندہی کرتی ہے۔ چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ عسکری ڈھانچے میں نمایاں تبدیلی لا سکتا ہے، جبکہ آئینی عدالت کا قیام عدالتی نظام میں ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔

عوامی سطح پر ترمیم کے مختلف نکات پر شدید بحث جاری ہے۔ کچھ حلقے اسے اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی کوشش سمجھ رہے ہیں، جبکہ ناقدین کے مطابق اس سے طاقت کا عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔

یہ مجوزہ ترمیم پاکستان کے آئینی نظام میں ایک بڑے موڑ کی حیثیت رکھتی ہے، جس کے اثرات کا انحصار اس کی عملی نفاذ کی نیت اور طریقہ کار پر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں