تحریر : محمود اصغر چوہدری
بھیڑ بکروں جیسی زندگی ملیالم فلم “گوٹ لائف” نے سعودی عرب سے لیکر خلیجی ممالک تک کی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔
اس ایک اکیلی فلم نے محمد بن سلمان کی حکومت کے اربوں ڈالر کی امیج بلڈنگ کی سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا ہے ۔سعودی عرب کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ترکی الشیخ ہیں جو دنیا بھر میں سعودی عرب کا سافٹ امیج بہتر بنانے کے لئے اربوں ڈالر کے پراجیکٹ کر رہے ہیں جس میں سعودی عرب میں سینما سے لیکر میوزک شوز اور 2030ء کے جدید سعودی ویژن کی تیاری شامل ہے دوسری جانب 2034ء میں سعودی میں فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاری بھی عروج پر ہیں۔
ایسے میں اس ایک فلم نے عرب ممالک میں انسانی حقوق کی تنزلی اور کفالہ جیسے جدید غلامی کے نظام پر بہت بڑے سوال اٹھا دئیے ہیں۔
یہ فلم انڈین رائٹر بنیامین کے ناول گوٹ ڈیز یعنی بکروں کے دن کی سچی کہانی پر مبنی ہے ۔ یہ فلم سینما میں تو مارچ میں آئی تھی لیکن اگست کے مہینے میں نیٹ فلیکس پر آتے ہی کئی ممالک میں ٹاپ ٹرینڈ کی لسٹ میں شامل ہوگئی ۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے انڈین مسلمان کی جو سعودی عرب کام کی نیت سے آتا ہے اور ایک ظالم بدو کفیل کے ہاتھوں اغواء ہو کر صحرا میں بھیڑ بکریوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ جہاں اس کی زندگی ایک ایسے قیدی کی بن جاتی ہے جس کا رابطہ ساری دنیا سے کٹ جاتا ہے اور وہ صحرا میں بھیڑ بکریاں چراتے ہوئے بالکل پاگل ہو جاتا ہے اتنا پاگل کہ وہ اپنی زبان تک بھول جاتا ہے اور بکریوں سے ان کی بولی بولنا شروع ہوجاتا ہے۔
اس فلم میں عربوں کے کفالہ سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ کس طرح برادر اسلامی ممالک میں جانے والے تارکین وطن اس جدید دور کی غلامی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
عرب ممالک میں جاری کفالہ سسٹم کے تحت کوئی بھی تارک وطن شہری ان ممالک میں ایک آزاد شہری نہیں ہوتا ۔ اس میں اس بات کی تخصیص بھی نہیں کہ وہ گھریلو ملازم ہے یا کسی بڑی کمپنی کا ملازم ہے ۔ ان ممالک میں پہنچتے ہی اس کا پاسپورٹ اور ذاتی شناختی دستاویزات تک اس کے کفیل کے تحویل میں ہوتے ہیں ۔ کفیل ہی اس جدید غلام کی ملازمت اور رہائش کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ کفیل ہی اپنے غلاموں کے معاشی و قانونی امور کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ویزہ کی تجدید سے لیکر ملک چھوڑنے تک کے معاملات ورکر اور کفیل سے منسلک ہوتے ہیں ۔ ورکر اپنے کفیل کی مرضی کے بغیر نہ ملازمت تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کا ملک چھوڑ سکتے ہیں ۔
جب میں پہلی دفعہ عمرہ کرنے سعودی عرب پہنچا تو ہم ایک گھر میں گئے جہاں کچھ پاکستانی رہتے تھے ۔ خبر آئی کہ ایک شخص کا والد فوت ہوگیا ہے اس کے گھر والوں کا فون آرہا تھا کہ جلدی پہنچو ۔ وہ بے چارہ یہاں سے وہاں ٹکٹ کے لئے فون کر رہا تھا ۔ ٹکٹ کا تو بندوبست ہو رہا تھا لیکن اس کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا اور وہ اپنے کفیل کو فون کر رہا تھا لیکن اس کے کفیل کا فون بند تھا اور وہ چھٹیاں منانے ویسے بھی کسی دوسرے شہر گیا ہوا تھا ۔ اس دن مجھے اندازہ ہوا کہ یورپی ممالک کی رہائش کتنی بڑی نعمت ہے جہاں انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے ۔
مارچ 2021ء میں انسانی حقوق کی تنظیم ڈبلیو ایچ او نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ سعودی عرب کی معیشت اور دولت لاکھوں غیر ملکی افراد کی محنت کے مرہون منت ہے رپورٹ میں ان کے حقوق میں بنیادی تبدیلیوں کا مطالبہ کیا گیا ۔ اس طرح اس سال جون 24 میں اسی ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کفالہ سسٹم کس طرح تارکین وطن شہریوں کے حقوق کا استحصال کرتا ہے۔
اگر تو آپ کی زندگی دکھوں اور غموں کا پہاڑ لگتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سے زیادہ کسی کو مشکلات نہیں ہیں تو یہ فلم ضرور دیکھیں آپ کو اندازہ ہوکہ زندگی کس طرح کچھ لوگوں کے لئے جہنم بن جاتی ہے ۔ بہترین اداکاری اور بہترین سینما ٹو گرافی اس فلم میں نمایاں ہو گی ۔ کاش ڈائریکٹر اس فلم کو اتنا لمبا نہ کر تا ۔ یا پھر اگر لمبا کرنا بھی چاہتا تھا تو ہیرو کے ذہن میں چلنے والے خیالات کا وائس اوور چلاتا رہتا بالکل اس طرح جس طرح ٹوم ہینکس کی فلم کاسٹ اووے میں کیا گیا تو یہ فلم آسکر لانے کی دوڑ میں شامل ہوجاتی ۔ اس کی غیر ضروری طوالت اسے بور بناتی ہے ۔
خلیجی ممالک اور سعودی عرب کی حکومتوں نےاس فلم پر یہ الزام لگایا ہے کہ یہ فلم ان کےخلا ف سازش ہے اور حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی ۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر عرب ممالک کے شہری اپنے ملازموں کے ساتھ تصاویر شئیر کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تارکین وطن ملازموں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں اور ان کو انسان ہی سمجھتے ہیں ۔مجھے خوشی ہے کہ فلمیں انسانی ذہنوں پر دستک کا باعث بن رہی ہیں ۔ اگر کوئی ڈائریکٹر کسی اچھے موضوع کو چن کر اچھی تخلیق بنائے تو آج بھی وہ ٹرینڈ سیٹ کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔