تحریر : عمران مزمل
سوئٹزرلینڈ ایک انتہائی منظم معاشرہ ہے، جس میں وسیع کاغذی کارروائی اور ریزیڈنسی پرمٹ سے لے کر صحت کی دیکھ بھال تک ہر چیز کے لیے مخصوص تقاضے ہیں۔سوئٹزرلینڈ میں غیر ملکیوں کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا چیلنج اکثر پیچیدہ بیوروکریسی، سحت امیگریشن قوانین ، رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنا ایک بہت کھٹن اور پیچیدہ عمل ہے۔ سوئس نظام سے ناواقف نئے آنے والوں تارکین وطن کے لیے سستی رہائش تلاش کرنا دوسرا بڑا چیلنج ہوتا ہے، کیونکہ سوئٹزرلینڈ دنیا کے مہنگے ترین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں رہائش، سامان اور خدمات کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ خاص طور پر زیورخ اور جنیوا جیسے بڑے شہروں میں غیر ملکیوں کو معقول رہائش کے لیے بہت زیدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے خاص طور پر کم اجرت ملازمت کرنے والے تارکین وطن کے لیے اپنے اخراجات کو پورا کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتا۔ میں اپنے پہلے کالم میں لکھ چکا ہوں تارکین وطن کیلئے سب سے بڑا بنیادی مسلہ سوئٹزر لینڈ میں بولی جانے والی زبانیں ہیں جرمن، فرانسیسی اور اطالوی بنیادی زبانیں بولی پڑھی اور لکھی جاتی ہیں۔
مناسب کام کی تلاش کیلئے تارکین وطن کے لئے بہت ضروری ہے آپ کو کسی ایک زبان پر عبور حاصل ہو۔
سوئٹزرلینڈ میں سماجی تحفظ کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے، لیکن صحت کی دیکھ بھال، پنشن، اور بے روزگاری کی امداد جیسے فوائد تک اہلیت اور رسائی کا انحصار تارکین وطن کی قانونی حیثیت اور رہائش کی مدت پر ہوتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کام نا کرنے والے افراد کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور اکثر اوقات تارکین وطن کو کام نا کرنے کی پاداش میں رہائشی اجازت نامہ سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں اور ان کے ممالک میں ڈیپورٹ بھی کر دیا جاتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ دوسرے یورپی ممالک کی طرح تارکین وطن کو امیگریشن نہیں دیتا۔ سوئٹزر لینڈ میں ڈاکومنٹ کا حصول ایک دشوار عمل ہے۔ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کو سوئس نے ہمشہ اپنے ملک میں خوش آمدید کہا ہے جبکہ تارکین وطن کی اکثریت نے مقامی خواتین اور مردوں سے شادی رچا کر ڈاکومنٹ حاصل کئے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے ڈاکومنٹ حاصل کرنے کے لئے تارکین وطن کی اکثریت نے اپنی زندگی کے بہترین سال اس ملک پر قربان کر دیے۔
تارکین وطن نے جہاں اس ملک کو اپنی زندگیاں دی وہی کچھ افراد نے فراڈ دھوکہ دہی اور جھوٹ سے سوشل سسٹم سے فائدہ بھی اٹھایا جس کا خمیازہ تمام تارکین وطن کو آج بھی بھگتنا پڑھ رہا ہے۔
اگر پاکستانیوں کی بات کی جائے ہم نے دیکھا گزشتہ دس پندرہ سالوں میں کافی پڑھے لکھے پاکستانی اس ملک میں آۓ ہیں اور اس وقت دنیا کی بہترین کمپنیز میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جنہوں یورپین ممالک کے اعلی اداروں سے تعلیم مکمل کی اور اچھی جابز کے ساتھ اس ملک میں آۓ اور اس وقت سوئٹزر لینڈ کی سر زمین پر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ میں پاکستانی تین کلاسسز میں تقسیم ہیں، ڈپلومیٹک، اعلی تعلیم یافتہ، اور میرے جیسے کم تعلیم یافتہ لوگ۔
تینوں کلاسسز میں ایک دوسرے سے رابطہ کا فقدان پایا جاتا ہے ہر طبقہ اپنے آپ کو دوسرے سے برتر اور اعلی سمجھتا ہے اور اس سارے عمل کے پیچھے ایک سوچ کارفرما ہے اور اس سوچ کو میں یہاں ڈسکسس نہیں کروں گا کیونکہ اس سوچ سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں۔
بہرحال ان چیلنجوں کے باوجود، بہت سے تارکین وطن سوئٹزرلینڈ کو ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال ملک سمجھتے ہیں جس میں ایک نئی زندگی کی تعمیر ہے۔ صبر، عزم، اور اپنانے کی آمادگی کے ساتھ، تارکین وطن ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں اور سوئس معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
آخر میں، سماجی طور پر انضمام اور سپورٹ نیٹ ورک بنانا مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ سوئس ریزرو ہونے کے لیے جانا جاتا ہے اور ثقافت بہت سے دوسرے ممالک سے بالکل مختلف ہے۔
جاری ہے اگلی تحریر میں تارکین وطن اور سوئس بچوں کی تعلیم کے حوالے سے بات کروں گا۔