تحریر :عمران مزمل
سوئٹزرلینڈ دلکش قدرتی نظاروں، پہاڑوں، جھیلوں، مختلف زبانوں، جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے دنیا میں ایک منفردحثیت رکھتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ کو جنت نظیر سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے لیکن اس جنت نظیر کو بنانے میں تارکین وطن کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
سوئٹزرلینڈ معاشی اور سیاسی طور پر ایک مستحکم ملک ہے اور یہ اس ملک میں رہنے والے باشندوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔
سوئٹزر لینڈ اور امیگریشن کا تعلق بہت پرانا ہے اس تعلق کو بنے ہوے سو سال سے زیدہ عرصہ ہو گیا ہے اور دن بدن یہ تعلق گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے بغیر یہ وطن نامکمل نظر آتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ اور یورپی یونین کے تعلقات ہمیشہ سے ہی سرد مہری کا شکار رہے ہیں اور یہی وہ وجہ ہے سوئٹزرلینڈ آج تک اس کا حصہ نہیں بن سکا۔ البتہ ناروے آئس لینڈ اور لیشٹن سٹائن کی طرح سوئٹزرلینڈ یورپین فری ٹریڈ ایسوسیشن کا حصہ ضرور ہے۔
اس کا حصہ بننے کے لئے آپ کو یورپی یونین کے اصول و ضوابط کی مکمل پاسداری کرنی ہوتی ہے جس میں فری موومنٹ اور جاب مارکیٹ تک رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔
سوئٹزرلینڈ میں رہنے والی 80 فیصد سے زیادہ غیر ملکی آبادی کا تعلق ہمسایہ یورپی ممالک سے رہا ہے۔ سوئٹزرلینڈ چار بڑے یورپین ممالک جرمنی، فرانس، اٹلی اور آسٹریا کے ساتھ اپنے بارڈرز کوشئیر کرتا ہے اور انہی ممالک کے ساتھ امیگریشن کی ایک طویل تاریخ ہے.
19 ویں صدی کے آخر میں ، ریلوے نیٹ ورک کی توسیع نے جدید سوئٹزرلینڈ میں تارکین وطن کی پہلی لہر کو جنم دیا۔ اس وقت امیگریشن تقریبا خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے ہوتی تھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعددنیا کے دوسرے ممالک کی طرح سوئٹزر لینڈ میں بھی معاشی ترقی ہوئی اس کے نتیجے میں ملازمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ 1951 اور 1970 کے درمیان سوئٹزرلینڈ نے تارکین وطن کی ایک بڑی آمد کا تجربہ کیا اور یہ تجربہ بہت سود مند ثابت ہوا اور تارکین وطن کی محنت کی بدولت سوئٹزرلینڈ نے ترقی کی منازل کو بہت کم عرصے میں طے کر کے اپنے آپ کو صف اول ممالک کی فہرست میں شامل کروا لیا ۔ 1970 اور 1980 میں سوئٹزر لینڈ کی معشیت جمود کا شکار رہی لیکن سوئٹزر لینڈ کی اس وقت کی حکومتوں نے بہترین پالیسیز ترتیب دیں اور اپنی جغرافیائی حدود کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوے اپنے ملک کو بہترین اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا اور گزشتہ 30 سالوں میں سوئٹزرلینڈ کے ہر شعبے میں نمایاں بہتری نظر آئی ہے۔
اوائل میں تارکین وطن کی خاصی بڑی تعداد کم پڑھے لکھے اورکم ہنر مند لوگوں کی آئی تھی۔
وقت کے ساتھ تارکین وطن کی پروفائل بھی بدل گئی اور آج سوئٹزرلینڈ میں تارکین وطن شہری سوئس شہریوں سے زیدہ تعلیم یافتہ اور اعلی عہدوں پرفائز ہیں۔
اگرچہ سوئٹزرلینڈ میں غیر ملکیوں کی تعداد خاص طور پر زیادہ ہے (آبادی کا تقریبا ایک چوتھائی) ، باوجود اس کےیہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سوئٹزرلینڈ میں دیگر ممالک کے مقابلے امیگریشن اور شہریت حاصل کرنے کا بہت سخت معیار ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں تارکین وطن کو جاب ، رہائش، ڈاکومنٹ کے حصول جیسے بےشمار مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
تارکین وطن کا دوسرا سب سے بڑا اور بنیادی مسلہ مقامی لوگوں میں انٹیگریشن بھی ہے اور اس کی وجہ مقامی زبانوں پر عبور حاصل نا ہونا۔
سوئٹزرلینڈ کے قوانین بہت سحت اور نافذ العمل ہیں۔ آپ کسی کو بجا تنگ کرنے کے جرم میں جیل بھجے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کو مانیٹر کیا جاتا ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں پاکستانیوں کی آمد بھی 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی اور پاکستانیوں نے بھی سوئٹزرلینڈ کی ترقی میں اپنا بھرپورحصہ ڈالا باوجود اس کے پاکستانیوں کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔ لیکن پاکستانیوں نے ہر شعبہ میں اپنا لوہا منوایا۔ پاکستانیوں کی کم تعداد کی سب سے بڑی وجہ امیگریشن اور ڈاکومنٹ کا مشکل حصول کہی جا سکتی ہے۔
پاکستانیوں کی یہ پہلی جنریشن ہے جن کے بچے پڑھ لکھ کر سوئٹزرلینڈ میں پاکستان اور اپنے والدین کا نام روشن کر رہے ہیں۔پاکستانیوں کی تمام تر امیدیں ان بچوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
آج سوئٹزرلینڈ میں پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد عمر کے آخری حصے کو چھو رہی ہے لیکن بدقسمتی سے بطور پاکستانی کمیونٹی ہم کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کر سکے جو سوئٹزرلینڈ اور پاکستان کی کمیونٹیز کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکے اور مقامی سطح کے مسائل کو اجاگر اور حل کروا سکے۔
سوئٹزرلینڈ میں دوسرے ممالک کی کمیونٹیز اختلافات کے باوجود اپنے حقوق کیلئے ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں جبکہ پاکستانیوں کا ہر پلیٹ فارم بننے سے پہلے ہی سیاست بغض، نفرت، حسد ، اور کردار کشی کی نظر ہو جاتا ہے۔