تحریر: انعم صدیق
پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کی شکست کے نتیجے میں برطانیہ نے فلسطین کے علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اُس وقت اس خطے میں عرب آبادی اکثریت میں اور یہودی آبادی اقلیت میں تھی 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست، جبکہ یروشلم (بیت المقدس) کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا جائے گا۔ یہ تجویز یہودی رہنماؤں نے قبول کر لی، جبکہ عربوں نے اسے کثرت سے مسترد کر دیا، جس کے نتیجے میں اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا۔ اسرائیل کی جدید ریاست کا قیام مئی 1940 کی دہائی میں ہولوکاسٹ اور دوسری عالمی جنگ کے بعد عمل میں آیا۔
جب ہٹلر نے یہودیوں کا خاتمہ کیا، یہودیوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جہاں بھی یہودی گئے، انہیں ہر طرف سے دھتکارا گیا۔ ان کے جہاز پر یہ الفاظ درج تھے: “ہٹلر نے ہمارے گھر بار تباہ کر دیے۔ آپ ہماری امید کو نہ کچلنا۔” بدقسمتی سے، جس زمین پر انہوں نے آخرکار پناہ لی، وہی زمین فلسطینیوں کے لیے ظلم و ستم کا میدان بن گئی آج اسرائیل اپنے ماضی کو بھول چکا ہے۔ یہ یہ دلخراش واقعہ “النكبة” (یعنی تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد 1967 میں ہونے والی ایک اور جنگ کے دوران اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غرب اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹیوں اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کرلیا۔ اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ سمجھتا ہے، جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت تصور کرتے ہیں۔ امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اسرائیلی دعوے کو تسلیم کرتا ہے۔ 1948 کے بعد گزشتہ 76 سالوں میں امن کیلئے مذاکرات وقتا فوقتا ہوتے رہے لیکن بدقسمتی سے معاملات حل نہ ہوسکے۔ سالوں سے جاری اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر ایک ہزار سے زائد راکٹ فائر کیے۔ سات اکتوبر کے حملوں کو جواز بنا کر اسرائیل نے اگلے ہی دن غزہ کے شہریوں پر شدید فضائی بمباری کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے۔ اس وحشیانہ حملے میں غزہ کے ہزاروں معصوم شہری، بشمول خواتین اور بچے، جاں بحق ہو چکے ، گزشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 42 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 16 ہزار معصوم بچے اور 11 ہزار خواتین شامل ہیں، جبکہ ایک لاکھ سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہیں۔ غزہ میں تقریباً تمام انفراسٹرکچر کو اسرائیلی حملوں نے تباہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے صحت، تعلیم اور دیگر ضروری خدمات مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہیں۔
سات اکتوبر 2023 سے 2024 تک جنگ کا ایک سال مکمل ہوگیا ، غزہ کے تقریباً 20 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو چکے، بدقسمتی سے اسرائیل کی اس کھلی بدمعاشی کو نہ تو عالمی عدالت انصاف روک سکی اور نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادیں اور اپیلیں، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اسرائیلی جارحیت کو کون روکے گا؟ اسرائیل پناہ گزین اب اپنے محسن، یعنی فلسطینی مسلمانوں، کا بے دردی سے قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی برادری کی ناکامی کی بھی عکاسی کرتی ہے، جب طاقتور ممالک ااسرائیل کو بے پناہ وسائل فراہم کرسکتے ہیں تو 57 مسلم ممالک اور اقوام متحدہ ان مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کے حق میں آواز کیوں نہیں بلند کرسکتے؟ گزشتہ 76 سالوں میں اقوام متحدہ، مسلم ممالک، او آئی سی، اور تمام انسانی حقوق کے علمبردار ادارے صرف مذمت کی حد تک ہی فلسطین کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس طویل عرصے کے دوران، میں نے ایک ایسی شخصیت کو دیکھا، چوہدری محمد سرور جو نہ صرف اپنے دور حکومت میں بلکہ عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی فلسطین کے حق میں مسلسل آواز بلند کرتے رہے۔ چوہدری محمد سرور نے چوہدری سرور نے اسرائیل کے ناجائز قبضے کو اجاگر کرنے کے لیے غزہ کے مغربی کنارے کا گیارہ مرتبہ دورہ کیا اور ان کی جدوجہد صرف الفاظ تک محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے عملی طور پر بھی فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کام کیا، ظلم کے خلاف مزاحمت کی اور ہمیشہ انصاف کا پرچم تھامے رکھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو واقعی فلسطین کے لیے کچھ بدلنے کی تڑپ رکھتے ہیں (اسکاٹش فرینڈز آف فلسطین) کے پلیٹ فارم سے بھی چوہدری سرور نے فلسطین کے لیے عالمی سطح پر یکجہتی کو فروغ دیا اور مغربی کنارے اور غزہ میں جانے واے وفد کی قیادت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حق میں بھرپور اور طاقتور آواز بلند کی، جہاں انہوں نے فلسطینی عوام کی مشکلات اور بے بسی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے پھولوں جیسے بچوں کو مسلا جارہا تھا، کیسے زخموں سے چوڑ بچے ہسپتال میں علاج کے لیے درد سے کراہ رہے تھے اور جب اسرائیلی وحشی ان معصوموں پر میزائل داغتے تھے تو لمحوں میں ان معصوم کلیوں کی آوازیں ہمیشہ کیلئے خاموش ہوجاتی تھی۔ ان مظلوموں کی چیخیں اور ان کے دکھ نے انہیں عالمی برادری کے سامنے ایک طاقتور آواز بننے پر مجبور کیا، تاکہ دنیا فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کی پامالی کو نظرانداز نہ کر سکے۔
سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے (میڈیکل ایڈ فار فلسطین) کے تعاون سے اسرائیلی جارحیت اور بے پناہ مظالم کا شکار مظلوم فلسطینیوں کیلئے طبی امداد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ غم و الم سے نڈھال ان بے بس لوگوں کی حالت زار نے چوہدری محمد سرور کے دل میں درد اور انصاف کی تڑپ کو اور بھی گہرا کردیا۔ان کی انصاف کے لیے بے لوث وابستگی اور فلسطینی عوام کے مصائب کو ختم کرنے کی لگن ان کی انتھک جدوجہد سے نمایاں تھی یہی وجہ ہے کہ چوہدری سرور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے نفاذ اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے مسلسل مہم چلاتے رہے ہیں، تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل ممکن ہو سکے اور فلسطینی عوام امن اور عزت سے آزاد فضاؤں میں سانس لے سکے۔
چوہدری سرور کی قیادت اور بے پناہ لگن نے ان لوگوں کی آواز کو دنیا کے سامنے پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے مگر بدقسمتی سے بین الاقوامی ادارے بھی اس معاملے میں کوئی خاص سنجیدہ نظر نہیں آئی آرہی۔ دو ارب مسلمان 57 اسلامی ممالک او ائی سی اور عرب لیگ بھی اسرائیل کے ظلم و ستم کو نہ روک سکی۔ کیا اسلامی ممالک اسرائیل کی بس مذمت کرتے رہیں گے؟ یا کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں گے؟ امریکہ مسلسل اسرائیل کو جدید ترین اور خطرناک اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس کے بعد کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل کے حوصلے ان مظلوم فلسطینیوں کے مقابلے میں بلند نہ ہوں، جو اپنے دفاع کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتے؟ ان بے گناہ فلسطینیوں کے پاس نہ تو جدید ہتھیار ہیں اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی حمایت، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی زمین اور حقوق کی حفاظت کے لیے صبر و استقامت سے کھڑے ہیں۔ میں تمام اسلامی ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا! فلسطین کے لیے آواز بلند کریں۔ ان معصوم جانوں کا کیا قصور ہے؟ انہیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزاد فضاؤں میں سانس لے سکیں، اپنے گھروں میں محفوظ رہ سکیں اور ایک پرامن زندگی گزار سکیں۔ فلسطینی عوام کی بے بسی کو نظرانداز کرنا عالمی برادری کی بےحسی ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب مل کر اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوں۔